دس ہزار سے 1500 کروڑ روپے اسٹاک مارکیٹ سے۔ محمد انور سے ملیئے۔ یہ مہاراشٹر جلگاؤں ڈسٹرکٹ کے ایک چھوٹے سے گاؤں املنر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد ایک کسان تھے اور ان کے والد کی وفات کے بعد ان کے چار بھائیوں کے درمیان تنازعات ہوئے اور جائداد کا بٹوارہ ہوا۔ جس کے نتیجے میں محمد انور کے حصے میں صرف 80000 روپے آئے۔ اب محمد انور سوچنے لگا کہ ان پیسوں کو کہاں لگایا جائے تاکہ وہ کچھ کما سکیں۔ دوسری طرف Wipro کمپنی کی بنیاد بھی اسی گاؤں سے ہوئی۔ اسی لئے اس کمپنی کے شیئرز بھی اسی گاؤں کے لوگوں نے بہت سے شیئرز اس کمپنی کے خریدے ہوئے تھے۔ اب کمپنی دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی۔ تبھی کمپنی کے مالک نے سوچا کہ اب ہماری کمپنی بڑھتی جا رہی ہے اس لئے کمپنی کے تمام شیئرز انویسٹرز سے واپس لئے جائیں۔ کمپنی نے اپنا نمائندہ جس کا نام ستیش شاہ تھا کو گاؤں بھیجا کہ وہ گاؤں جا کر لوگوں سے جس قیمت پر وہ چاہیں ان سے واپس لے لیں۔ ستیش شاہ اس گاؤں میں نیا تھا اور اس نے وہاں جا کر محمد انور سے ملاقات کی اور اسے اپنے ساتھ ملایا تاکہ وہ گھر گھر جا کر لوگوں سے شیئرز واپس لینے میں اس کی مدد کرے۔ اور جاتے ہوئے ستیش اسے یہ بتاتا گیا کہ اس کمپنی میں انویسٹ کر لو یہ کمپنی بڑھنے والی ہے۔ اس وقت انور کے پاس 80 ہزار روپے تھے تو انور نے سوچا کہ سارے پیسے لگانے سے بہتر ہے کہ صرف اتنے ہی لگائے جائیں جس سے اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس نے پھر دس ہزار روپے کے 100 شیئرز خرید لئے 1980 میں۔ اس کے صرف ایک سال بعد کمپنی نے بونس دیا انویسٹرز کو 1:1 ریشو کے حساب سے اس طرح اس کے شیئرز صرف ایک سال میں دگنے ہو گئے یعنی 200 شیئرز۔ اس طرح وقت گزرتا گیا اور محمد انور کے شیئرز درج ذیل ریشو کے حساب سے بٹھتے گئے۔ 1981 1:1 - 200 Shares 1985 1:1 - 400 Shares 1986 Company split the share to Rs.10 - 4000 Shares 1987 1:1 - 8000 Shares 1989 1:1 - 16,000 Shares 1992 1:1 - 32,000 Shares 1995 1:1 - 64,000 Shares 1997 2:1 - 1,92,000 Shares 1999 Company split the share to Rs.2 - 9,60,000 Shares 2004 2:1 - 28,80,000 Shares 2005 1:1 - 57,60,000 Shares 2010 2:3 - 96,00,000 Shares 2017 1:1 - 1,92,00,000 Shares 2019 1:3 - 2,56,00,000 Shares سال 2019 میں محمد انور کے شیئرز کی تعداد دو کروڑ 56 لاکھ تک پہنچ گئی۔ اور اگر ہم آج کی تاریخ کی بات کریں تو 512.25 روپے کا ہے۔ ان 40 سالوں میں شیئر کی قیمت تو اتنی نہیں بڑھی یعنی ایک شیئر سو روپے سے بڑھ کر 512 روپے تک پہنچا لیکن جو کمپنی نے بونس دیئے شیئرز پر اور شیئر بڑھتے گئے اس حساب سے آج کی تاریخ میں محمد انور کے پاس دو کروڑ 56 لاکھ شیئر ہیں اور اگر اس کو 512 روپے کے ساتھ ضرب دی جائے تو اس کی قیمت 13113600000 روپے بنتی ہے۔ مگر میں نے تو کہا تھا کہ پندرہ سو کروڑ یہ تو تقریباً 13 سو کروڑ کے لگ بھگ بنتے ہیں۔ تھوڑا حوصلہ رکھیں کمپنی نے جو dividends یعنی منافع دیا وہ دو سو کروڑ سے زیادہ بنتا ہے تو اس حساب سے محمد انور نے چالیس سالوں میں صرف دس ہزار روپے سے 15 سو کروڑ سے زیادہ کما لئے۔ اس لئے اگر آپ کسی بھی بڑے انویسٹرز سے مشورہ کریں تو وہ آپ کو کبھی بھی انٹرا ڈے ٹریڈنگ کا مشورہ نہیں دیں گے۔ انٹرا ڈے ٹریڈنگ وہ ٹریڈنگ ہوتی ہے کہ آپ نے صبح شیئر خریدا اور کسی بھی صورت میں شام کو سودا کاٹ کر یعنی اسٹاک بیچ کر ہی جانا ہے چاہے فائدہ ہو یا نقصان۔ یا پھر شارٹ ٹرم انویسٹ کبھی کرنے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ آپ انویسٹمنٹ کی بات کریں تو Warren Buffett کا زکر نہ کریں تو یہ زیادتی ہو گی۔ اسے اسٹاک مارکیٹ کا گرو مانا جاتا ہے۔ اس نے گیارہ سال کی عمر سے اسٹاک مارکیٹ میں قدم رکھا اور اب اس کی عمر نوے سال ہے یعنی اسے 80 سال کا تجربہ ہے اور Warren Buffett بھی کبھی شارٹ ٹرم انویسٹمنٹ کا مشورہ نہیں دیتا ہمیشہ لانگ ٹرم انویسٹمنٹ کی بات کرتا ہے اور اسی وجہ سے آج وہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ اور ہمارے ہاں لوگ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ ایک جوا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو انٹرا ڈے ٹریڈنگ کرتے ہیں اور جب نقصان ہوتا ہے تو پھر یہ کہتے ہوئے نکل جاتے ہیں کہ ہم نہ کہتے تھے یہ جوا ہے۔ اس لئے اسٹاک مارکیٹ میں ہمیشہ وہ پیسہ ڈالیں جس کو ڈوبنے سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور کبھی بھی ادھار کا پیسہ اسٹاک مارکیٹ میں نہیں ڈالنا اور نہ ہی کبھی leverage لینا ہے۔ شارٹ ٹرم انویسٹمنٹ کبھی نہیں کرنی بس کمپنی ایسی منتخب کریں جو کہ dividends دیتی ہو اور بونس وغیرہ دیتی ہو اور جس میں آپ کو لگتا ہو کہ یہ کمپنی آئندہ وقت میں بڑھ سکتی ہے اس میں انویسٹ کر کے بھول جائیں اور پھر کمال دیکھیں۔ یا پھر اگر آپ کمیٹیاں ڈالتے ہیں تو جتنی بچت آپ اس میں دیتے رہتے ہیں تاکہ بیٹی کی شادی کر سکیں یا پھر بیٹے کی پڑھائی پر خرچ کر سکیں تو بجائے کمیٹیاں ڈالنے کے آپ اسٹاک مارکیٹ میں ڈالتے جائیں۔ اس طرح آپ کی انویسٹمنٹ بھی محفوظ ہوتی جائے گی اور منافع الگ سے۔ اسٹاک مارکیٹ میں انویسٹ کرنا اب بہت ہی آسان ہو گیا ہے بس کوئی بروکر ڈھونڈھیں اور اس کے پاس اکاؤنٹ بنا لیں اور جتنی مرضی آپ انویسٹمنٹ کر سکتے ہیں اس کی کوئی لمٹ نہیں ہے۔ میں آپ کو اس لئے کوئی بروکر یا شیئر نہیں بتا سکتا تاکہ کوئی یہ نہ کہ سکے کہ میں نے یہ پیڈ پرموشن کی ہے یا پھر کوئ بھی وجہ ہو سکتی ہے تو اس لئے اپنے بروکر اور شیئرز کی خود ریسرچ کریں کیونکہ پیسہ آپ کا ہے اور کمانا بھی آپ نے ہی ہے۔ دعاؤں کا طالب: محمد عمیر ابوبکر #Umair_Abubakkar

By GSM Player → Saturday, 22 May 2021

دس ہزار سے 1500 کروڑ روپے اسٹاک مارکیٹ سے۔ محمد انور سے ملیئے۔ یہ مہاراشٹر جلگاؤں ڈسٹرکٹ کے ایک چھوٹے سے گاؤں املنر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد ایک کسان تھے اور ان کے والد کی وفات کے بعد ان کے چار بھائیوں کے درمیان تنازعات ہوئے اور جائداد کا بٹوارہ ہوا۔ جس کے نتیجے میں محمد انور کے حصے میں صرف 80000 روپے آئے۔ اب محمد انور سوچنے لگا کہ ان پیسوں کو کہاں لگایا جائے تاکہ وہ کچھ کما سکیں۔ دوسری طرف Wipro کمپنی کی بنیاد بھی اسی گاؤں سے ہوئی۔ اسی لئے اس کمپنی کے شیئرز بھی اسی گاؤں کے لوگوں نے بہت سے شیئرز اس کمپنی کے خریدے ہوئے تھے۔ اب کمپنی دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی۔ تبھی کمپنی کے مالک نے سوچا کہ اب ہماری کمپنی بڑھتی جا رہی ہے اس لئے کمپنی کے تمام شیئرز انویسٹرز سے واپس لئے جائیں۔ کمپنی نے اپنا نمائندہ جس کا نام ستیش شاہ تھا کو گاؤں بھیجا کہ وہ گاؤں جا کر لوگوں سے جس قیمت پر وہ چاہیں ان سے واپس لے لیں۔ ستیش شاہ اس گاؤں میں نیا تھا اور اس نے وہاں جا کر محمد انور سے ملاقات کی اور اسے اپنے ساتھ ملایا تاکہ وہ گھر گھر جا کر لوگوں سے شیئرز واپس لینے میں اس کی مدد کرے۔ اور جاتے ہوئے ستیش اسے یہ بتاتا گیا کہ اس کمپنی میں انویسٹ کر لو یہ کمپنی بڑھنے والی ہے۔ اس وقت انور کے پاس 80 ہزار روپے تھے تو انور نے سوچا کہ سارے پیسے لگانے سے بہتر ہے کہ صرف اتنے ہی لگائے جائیں جس سے اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس نے پھر دس ہزار روپے کے 100 شیئرز خرید لئے 1980 میں۔ اس کے صرف ایک سال بعد کمپنی نے بونس دیا انویسٹرز کو 1:1 ریشو کے حساب سے اس طرح اس کے شیئرز صرف ایک سال میں دگنے ہو گئے یعنی 200 شیئرز۔ اس طرح وقت گزرتا گیا اور محمد انور کے شیئرز درج ذیل ریشو کے حساب سے بٹھتے گئے۔ 1981 1:1 - 200 Shares 1985 1:1 - 400 Shares 1986 Company split the share to Rs.10 - 4000 Shares 1987 1:1 - 8000 Shares 1989 1:1 - 16,000 Shares 1992 1:1 - 32,000 Shares 1995 1:1 - 64,000 Shares 1997 2:1 - 1,92,000 Shares 1999 Company split the share to Rs.2 - 9,60,000 Shares 2004 2:1 - 28,80,000 Shares 2005 1:1 - 57,60,000 Shares 2010 2:3 - 96,00,000 Shares 2017 1:1 - 1,92,00,000 Shares 2019 1:3 - 2,56,00,000 Shares سال 2019 میں محمد انور کے شیئرز کی تعداد دو کروڑ 56 لاکھ تک پہنچ گئی۔ اور اگر ہم آج کی تاریخ کی بات کریں تو 512.25 روپے کا ہے۔ ان 40 سالوں میں شیئر کی قیمت تو اتنی نہیں بڑھی یعنی ایک شیئر سو روپے سے بڑھ کر 512 روپے تک پہنچا لیکن جو کمپنی نے بونس دیئے شیئرز پر اور شیئر بڑھتے گئے اس حساب سے آج کی تاریخ میں محمد انور کے پاس دو کروڑ 56 لاکھ شیئر ہیں اور اگر اس کو 512 روپے کے ساتھ ضرب دی جائے تو اس کی قیمت 13113600000 روپے بنتی ہے۔ مگر میں نے تو کہا تھا کہ پندرہ سو کروڑ یہ تو تقریباً 13 سو کروڑ کے لگ بھگ بنتے ہیں۔ تھوڑا حوصلہ رکھیں کمپنی نے جو dividends یعنی منافع دیا وہ دو سو کروڑ سے زیادہ بنتا ہے تو اس حساب سے محمد انور نے چالیس سالوں میں صرف دس ہزار روپے سے 15 سو کروڑ سے زیادہ کما لئے۔ اس لئے اگر آپ کسی بھی بڑے انویسٹرز سے مشورہ کریں تو وہ آپ کو کبھی بھی انٹرا ڈے ٹریڈنگ کا مشورہ نہیں دیں گے۔ انٹرا ڈے ٹریڈنگ وہ ٹریڈنگ ہوتی ہے کہ آپ نے صبح شیئر خریدا اور کسی بھی صورت میں شام کو سودا کاٹ کر یعنی اسٹاک بیچ کر ہی جانا ہے چاہے فائدہ ہو یا نقصان۔ یا پھر شارٹ ٹرم انویسٹ کبھی کرنے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ آپ انویسٹمنٹ کی بات کریں تو Warren Buffett کا زکر نہ کریں تو یہ زیادتی ہو گی۔ اسے اسٹاک مارکیٹ کا گرو مانا جاتا ہے۔ اس نے گیارہ سال کی عمر سے اسٹاک مارکیٹ میں قدم رکھا اور اب اس کی عمر نوے سال ہے یعنی اسے 80 سال کا تجربہ ہے اور Warren Buffett بھی کبھی شارٹ ٹرم انویسٹمنٹ کا مشورہ نہیں دیتا ہمیشہ لانگ ٹرم انویسٹمنٹ کی بات کرتا ہے اور اسی وجہ سے آج وہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ اور ہمارے ہاں لوگ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ ایک جوا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو انٹرا ڈے ٹریڈنگ کرتے ہیں اور جب نقصان ہوتا ہے تو پھر یہ کہتے ہوئے نکل جاتے ہیں کہ ہم نہ کہتے تھے یہ جوا ہے۔ اس لئے اسٹاک مارکیٹ میں ہمیشہ وہ پیسہ ڈالیں جس کو ڈوبنے سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور کبھی بھی ادھار کا پیسہ اسٹاک مارکیٹ میں نہیں ڈالنا اور نہ ہی کبھی leverage لینا ہے۔ شارٹ ٹرم انویسٹمنٹ کبھی نہیں کرنی بس کمپنی ایسی منتخب کریں جو کہ dividends دیتی ہو اور بونس وغیرہ دیتی ہو اور جس میں آپ کو لگتا ہو کہ یہ کمپنی آئندہ وقت میں بڑھ سکتی ہے اس میں انویسٹ کر کے بھول جائیں اور پھر کمال دیکھیں۔ یا پھر اگر آپ کمیٹیاں ڈالتے ہیں تو جتنی بچت آپ اس میں دیتے رہتے ہیں تاکہ بیٹی کی شادی کر سکیں یا پھر بیٹے کی پڑھائی پر خرچ کر سکیں تو بجائے کمیٹیاں ڈالنے کے آپ اسٹاک مارکیٹ میں ڈالتے جائیں۔ اس طرح آپ کی انویسٹمنٹ بھی محفوظ ہوتی جائے گی اور منافع الگ سے۔ اسٹاک مارکیٹ میں انویسٹ کرنا اب بہت ہی آسان ہو گیا ہے بس کوئی بروکر ڈھونڈھیں اور اس کے پاس اکاؤنٹ بنا لیں اور جتنی مرضی آپ انویسٹمنٹ کر سکتے ہیں اس کی کوئی لمٹ نہیں ہے۔ میں آپ کو اس لئے کوئی بروکر یا شیئر نہیں بتا سکتا تاکہ کوئی یہ نہ کہ سکے کہ میں نے یہ پیڈ پرموشن کی ہے یا پھر کوئ بھی وجہ ہو سکتی ہے تو اس لئے اپنے بروکر اور شیئرز کی خود ریسرچ کریں کیونکہ پیسہ آپ کا ہے اور کمانا بھی آپ نے ہی ہے۔ دعاؤں کا طالب: محمد عمیر ابوبکر #Umair_Abubakkar
Umair Abubakkar

I'm Muhammad Umair Abubakkar. A full time web designer. I enjoy to make modern template. I love create blogger template and write about web design, blogger. Now I'm working with GSM Player.

No Comment to " دس ہزار سے 1500 کروڑ روپے اسٹاک مارکیٹ سے۔ محمد انور سے ملیئے۔ یہ مہاراشٹر جلگاؤں ڈسٹرکٹ کے ایک چھوٹے سے گاؤں املنر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد ایک کسان تھے اور ان کے والد کی وفات کے بعد ان کے چار بھائیوں کے درمیان تنازعات ہوئے اور جائداد کا بٹوارہ ہوا۔ جس کے نتیجے میں محمد انور کے حصے میں صرف 80000 روپے آئے۔ اب محمد انور سوچنے لگا کہ ان پیسوں کو کہاں لگایا جائے تاکہ وہ کچھ کما سکیں۔ دوسری طرف Wipro کمپنی کی بنیاد بھی اسی گاؤں سے ہوئی۔ اسی لئے اس کمپنی کے شیئرز بھی اسی گاؤں کے لوگوں نے بہت سے شیئرز اس کمپنی کے خریدے ہوئے تھے۔ اب کمپنی دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی۔ تبھی کمپنی کے مالک نے سوچا کہ اب ہماری کمپنی بڑھتی جا رہی ہے اس لئے کمپنی کے تمام شیئرز انویسٹرز سے واپس لئے جائیں۔ کمپنی نے اپنا نمائندہ جس کا نام ستیش شاہ تھا کو گاؤں بھیجا کہ وہ گاؤں جا کر لوگوں سے جس قیمت پر وہ چاہیں ان سے واپس لے لیں۔ ستیش شاہ اس گاؤں میں نیا تھا اور اس نے وہاں جا کر محمد انور سے ملاقات کی اور اسے اپنے ساتھ ملایا تاکہ وہ گھر گھر جا کر لوگوں سے شیئرز واپس لینے میں اس کی مدد کرے۔ اور جاتے ہوئے ستیش اسے یہ بتاتا گیا کہ اس کمپنی میں انویسٹ کر لو یہ کمپنی بڑھنے والی ہے۔ اس وقت انور کے پاس 80 ہزار روپے تھے تو انور نے سوچا کہ سارے پیسے لگانے سے بہتر ہے کہ صرف اتنے ہی لگائے جائیں جس سے اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس نے پھر دس ہزار روپے کے 100 شیئرز خرید لئے 1980 میں۔ اس کے صرف ایک سال بعد کمپنی نے بونس دیا انویسٹرز کو 1:1 ریشو کے حساب سے اس طرح اس کے شیئرز صرف ایک سال میں دگنے ہو گئے یعنی 200 شیئرز۔ اس طرح وقت گزرتا گیا اور محمد انور کے شیئرز درج ذیل ریشو کے حساب سے بٹھتے گئے۔ 1981 1:1 - 200 Shares 1985 1:1 - 400 Shares 1986 Company split the share to Rs.10 - 4000 Shares 1987 1:1 - 8000 Shares 1989 1:1 - 16,000 Shares 1992 1:1 - 32,000 Shares 1995 1:1 - 64,000 Shares 1997 2:1 - 1,92,000 Shares 1999 Company split the share to Rs.2 - 9,60,000 Shares 2004 2:1 - 28,80,000 Shares 2005 1:1 - 57,60,000 Shares 2010 2:3 - 96,00,000 Shares 2017 1:1 - 1,92,00,000 Shares 2019 1:3 - 2,56,00,000 Shares سال 2019 میں محمد انور کے شیئرز کی تعداد دو کروڑ 56 لاکھ تک پہنچ گئی۔ اور اگر ہم آج کی تاریخ کی بات کریں تو 512.25 روپے کا ہے۔ ان 40 سالوں میں شیئر کی قیمت تو اتنی نہیں بڑھی یعنی ایک شیئر سو روپے سے بڑھ کر 512 روپے تک پہنچا لیکن جو کمپنی نے بونس دیئے شیئرز پر اور شیئر بڑھتے گئے اس حساب سے آج کی تاریخ میں محمد انور کے پاس دو کروڑ 56 لاکھ شیئر ہیں اور اگر اس کو 512 روپے کے ساتھ ضرب دی جائے تو اس کی قیمت 13113600000 روپے بنتی ہے۔ مگر میں نے تو کہا تھا کہ پندرہ سو کروڑ یہ تو تقریباً 13 سو کروڑ کے لگ بھگ بنتے ہیں۔ تھوڑا حوصلہ رکھیں کمپنی نے جو dividends یعنی منافع دیا وہ دو سو کروڑ سے زیادہ بنتا ہے تو اس حساب سے محمد انور نے چالیس سالوں میں صرف دس ہزار روپے سے 15 سو کروڑ سے زیادہ کما لئے۔ اس لئے اگر آپ کسی بھی بڑے انویسٹرز سے مشورہ کریں تو وہ آپ کو کبھی بھی انٹرا ڈے ٹریڈنگ کا مشورہ نہیں دیں گے۔ انٹرا ڈے ٹریڈنگ وہ ٹریڈنگ ہوتی ہے کہ آپ نے صبح شیئر خریدا اور کسی بھی صورت میں شام کو سودا کاٹ کر یعنی اسٹاک بیچ کر ہی جانا ہے چاہے فائدہ ہو یا نقصان۔ یا پھر شارٹ ٹرم انویسٹ کبھی کرنے کا مشورہ نہیں دیں گے۔ آپ انویسٹمنٹ کی بات کریں تو Warren Buffett کا زکر نہ کریں تو یہ زیادتی ہو گی۔ اسے اسٹاک مارکیٹ کا گرو مانا جاتا ہے۔ اس نے گیارہ سال کی عمر سے اسٹاک مارکیٹ میں قدم رکھا اور اب اس کی عمر نوے سال ہے یعنی اسے 80 سال کا تجربہ ہے اور Warren Buffett بھی کبھی شارٹ ٹرم انویسٹمنٹ کا مشورہ نہیں دیتا ہمیشہ لانگ ٹرم انویسٹمنٹ کی بات کرتا ہے اور اسی وجہ سے آج وہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ اور ہمارے ہاں لوگ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ ایک جوا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو انٹرا ڈے ٹریڈنگ کرتے ہیں اور جب نقصان ہوتا ہے تو پھر یہ کہتے ہوئے نکل جاتے ہیں کہ ہم نہ کہتے تھے یہ جوا ہے۔ اس لئے اسٹاک مارکیٹ میں ہمیشہ وہ پیسہ ڈالیں جس کو ڈوبنے سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور کبھی بھی ادھار کا پیسہ اسٹاک مارکیٹ میں نہیں ڈالنا اور نہ ہی کبھی leverage لینا ہے۔ شارٹ ٹرم انویسٹمنٹ کبھی نہیں کرنی بس کمپنی ایسی منتخب کریں جو کہ dividends دیتی ہو اور بونس وغیرہ دیتی ہو اور جس میں آپ کو لگتا ہو کہ یہ کمپنی آئندہ وقت میں بڑھ سکتی ہے اس میں انویسٹ کر کے بھول جائیں اور پھر کمال دیکھیں۔ یا پھر اگر آپ کمیٹیاں ڈالتے ہیں تو جتنی بچت آپ اس میں دیتے رہتے ہیں تاکہ بیٹی کی شادی کر سکیں یا پھر بیٹے کی پڑھائی پر خرچ کر سکیں تو بجائے کمیٹیاں ڈالنے کے آپ اسٹاک مارکیٹ میں ڈالتے جائیں۔ اس طرح آپ کی انویسٹمنٹ بھی محفوظ ہوتی جائے گی اور منافع الگ سے۔ اسٹاک مارکیٹ میں انویسٹ کرنا اب بہت ہی آسان ہو گیا ہے بس کوئی بروکر ڈھونڈھیں اور اس کے پاس اکاؤنٹ بنا لیں اور جتنی مرضی آپ انویسٹمنٹ کر سکتے ہیں اس کی کوئی لمٹ نہیں ہے۔ میں آپ کو اس لئے کوئی بروکر یا شیئر نہیں بتا سکتا تاکہ کوئی یہ نہ کہ سکے کہ میں نے یہ پیڈ پرموشن کی ہے یا پھر کوئ بھی وجہ ہو سکتی ہے تو اس لئے اپنے بروکر اور شیئرز کی خود ریسرچ کریں کیونکہ پیسہ آپ کا ہے اور کمانا بھی آپ نے ہی ہے۔ دعاؤں کا طالب: محمد عمیر ابوبکر #Umair_Abubakkar "

Enter Your Comments

یہاں پر اپنی راۓ دیں.